معروف شاعر ظہیر غازی پوری کا یوم وفات

آج معروف شاعر ظہیر غازی پوری کا یوم وفات ہے

ظہیر غازی پوری نام ظہیر عالم انصاری اور تخلص ظہیر ہے۔8 جون 1938 کو پیدا ہوئے۔
ظہیر غازی پوری کا آبائی وطن غازی پور (یوپی) ہے ۔ وطن ثانی ہزاری باغ(جھارکنڈ) ہے۔
1957ء میں بی اے کیا۔
آفس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے ۱۹۹۶ء میں ریٹائر ہوئے۔
شاعری میں ابراحسنی گنوری مرحوم سے تلمذ حاصل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں : معروف کہانی کار اور ترقی پسند شاعر ظہیر کاشمیری کا یومِ پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’تثلیث فن‘‘ (نظمیں، مشترکہ مجموعہ)، ’’الفاظ کا سفر‘‘(نظمیں ، غزلیں)، ’’آشوب نوا‘‘(غزلیں)، ’’کہرے کی دھول‘‘(نظمیں)، ’’سبزموسم کی صدا‘‘(غزلیں)، ’’دعوت صد نشتر‘‘ (رباعیات)، ’’لفظوں کے پرند‘‘(نظمیں)۔
3 نومبر 2016 کو وفات پائی
۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے لمحے پر ہمیں قربان ہو جانا پڑا
ایک ہی لغزش میں جب انسان ہو جانا پڑا
بے نیازانہ گزرنے پر اٹھیں جب انگلیاں
مجھ کو اپنے عہد کی پہچان ہو جانا پڑا
زندگی جب نا شناسی کی سزا بنتی گئی
رابطوں کی خود مجھے میزان ہو جانا پڑا
ریزہ ریزہ اپنا پیکر اک نئی ترتیب میں
کینوس پر دیکھ کر حیران ہو جانا پڑا
ساعتوں کی آہنی زنجیر میں جکڑی ہوئی
سانس کی ترتیب پر قربان ہو جانا پڑا
وہ تو لمحوں کے سسکتے دائروں میں قید ہے
جس کو اپنے آپ سے انجان ہو جانا پڑا
اک پہیلی کی طرح نافہم تھے ہم بھی ظہیرؔ
آپ کی خاطر مگر آسان ہو جانا پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔
اترے تو کئی بار صحیفے مرے گھر میں
ملتے ہیں مگر صرف جریدے مرے گھر میں
آواز میں لذت کا نیا شہد جو گھولیں
اترے نہ کبھی ایسے پرندے مرے گھر میں
نیزے تو شعاعوں کے رہے خون کے پیاسے
نم دیدہ تھے دیوار کے سائے مرے گھر میں
قندیل نوا لے کے سفر ہی میں رہا میں
دھندلا گئے ارمانوں کے شیشے مرے گھر میں
اندر کی حرارت سے بدن سوکھ رہا ہے
اتریں کبھی شبنم کے قبیلے مرے گھر میں
میں کیسے تمناؤں کے درپن کو بچاؤں
سفاک ہوئے جاتے ہیں لمحے مرے گھر میں
البم کی بھی سوغات طرب خیز ہے کتنی
اب میری طرح ہیں کئی چہرے میرے گھر میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں : معروف فکشن رائٹر، ناول نگار سجاد ظہیر کا یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر غزل ہر شعر اپنا استعارہ آشنا
فصل گل میں جیسے شاخ گل شرارا آشنا
خون تھوکا دل جلایا نقد جاں قربان کی
شہر فن میں میں رہا کتنا خسارا آشنا
کہہ گیا اپنی نظر سے ان کہے قصے بھی وہ
بزم حرف و صوت میں جو تھا اشارا آشنا
اپنے ٹوٹے شہپروں کے نوحہ گر تو تھے بہت
دشت فن میں تھا نہ کوئی سنگ خارا آشنا
عمر بھر بپھری ہوئی موجوں سے جو لڑتا رہا
وہ سمندر تو ازل سے تھا کنارا آشنا
۔۔۔۔۔۔۔۔
آئنے میں خود اپنا چہرا ہے
پھر بھی کیوں اجنبی سا لگتا ہے
جس پہ انسانیت کو ناز تھا کل
اب وہ سب سے بڑا درندہ ہے
فکر بھی ہے عجیب سا جنگل
جس کا موسم بدلتا رہتا ہے
کیسے اپنی گرفت میں آئے
آگہی اک بسیط دریا ہے
اس میں ظلمت پنپ نہیں سکتی
ذہن سورج کی تاب رکھتا ہے
وہ سمجھتا ہے آئنے کی بساط
جس نے پتھر کبھی تراشا ہے
کیا ہماری وفا شعاری سے
ہر جگہ انتشار برپا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

معروف شاعر جرم محمد آبادی کا یومِ وفات

آج معروف شاعر جرم محمد آبادی کا یومِ وفات ہے (پیدائش: 4 فروری، 1903ء- وفات: 15 جنوری، 1980ء) ———- جرم کا اصل نام ابوالحسن تھا اور تخلص جرم جبکہ شہرت جرم محمد آبادی سے پائی- 4 فروری 1903 کو جرم محمد آباد ضلع اعظم گڑھ کے قصبے محمد آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتداء میں سامری […]

معروف شاعر سید محسن نقوی کا یوم وفات

آج معروف شاعر سید محسن نقوی کا یوم وفات ہے (پیدائش: 5 مئی ، 1947ء- وفات: 15 جنوری، 1996ء) ———- محسن نقوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔ ان کا مکمل نام سید غلام عباس تھا۔ لفظ محسن اُن کا تخلص تھا اور لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ لہذا بحیثیت ایک […]