مقام شوق سے آگے بھی اک رستہ نکلتا ہے

کہیں کیا سلسلہ دل کا کہاں پر جا نکلتا ہے

مژہ تک آتا جاتا ہے بدن کا سب لہو کھنچ کر

کبھی کیا اس طرح بھی یاد کا کانٹا نکلتا ہے

دکان دل بڑھاتے ہیں حساب بیش و کم کر لو

ہمارے نام پر جس جس کا بھی جتنا نکلتا ہے

ابھی ہے حسن میں حسن نظر کی کار فرمائی

ابھی سے کیا بتائیں ہم کہ وہ کیسا نکلتا ہے

میان شہر ہیں یا آئنوں کے روبرو ہیں ہم

جسے بھی دیکھتے ہیں کچھ ہمیں جیسا نکلتا ہے

یہ دل کیوں ڈوب جاتا ہے اسی سے پوچھ لوں گا میں

ستارہ شام ہجراں کا ادھر بھی آ نکلتا ہے

دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا

ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]