مقبول نہ ہوں در پہ یہ امکاں تو نہیں ہے

پر لفظ کوئی آپ کے شایاں تو نہیں ہے

اصحاب نے ہر چیز لُٹا دی ہے نبی پر

یہ عشق کا دعویٰ کوئی آساں تو نہیں ہے

ہے نعت قدم بوسیِ سرکارِ دو عالم

یہ حسنِ سخن کا کوئی میداں تو نہیں ہے

یہ میرے درودوں میں کمی کس کیلئے آقا

رحمت ترے رب کی کہیں نالاں تو نہیں ہے

بے باک دلوں کو ہے توجہ تری درکار

دُنیا کے ہیں غم پر غمِ عصیاں تو نہیں ہے

جو دینے سے پہلے مرے اطوار کو تولے

ایسی مری سرکار کی میزاں تو نہیں ہے

آقا تری سیرت کے یہ انوار عطا ہوں

ہمسائے سے پوچُھوں تو پریشاں تو نہیں ہے

ہے قلبِ جہاں پر بھی سدا جس کی حکومت

اِس خُلق کا حامل کوئی سلطاں تو نہیں ہے

جو طعنہ زنی پاک صحابہؓ پہ ہے کرتا

خود نجس ہے بدبخت وہ انساں تو نہیں ہے

بیٹھا ہی رہے گا یہ شکیلؔ آپ کے در پر

یہ رونقِ دُنیا مرا ارماں تو نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]