مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا

حقا کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا

جس مسند عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے

کیا تاب گزر ہووے تعقل کے قدم کا

بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن

آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دَیر و حَرم کا

ہے خوف اگر جی میں تو ہے تیرے غضب کا

اور دل میں بھروسہ ہے تو تیرے ہی کرم کا

مانند حباب آنکھ تو اے درد کھلی تھی

کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

کرم ایسا کبھی اے ربِ دیں ہو

نبی کا سنگِ در میری جبیں ہو نگاہوں میں بسا ہو سبز گنبد لبوں پر مدحتِ سلطانِ دیں ہو سکوں کی روشنی صد آفریں ہے نبی کی یاد ہی دل کی مکیں ہو محبت ، پیار ، امن و آشتی کا مرا کردار سنت کا امیں ہو ہمیشہ دین کے میں کام آؤں مرا ہر […]