ملتی نہیں منزل تو مقدر کی عطا ہے

یہ راستہ لیکن کسی رہبر کی عطا ہے

کب میری صفائی کوبھلا مانے گی دنیا

الزام ہی جب ایسے فسوں گر کی عطا ہے

جچتے نہیں آنکھوں میں شبستان و گلستاں

یہ دربدری ایسے کسی در کی عطا ہے

ساحل کے خزانے نہیں دامن میں ہمارے

جو کچھ بھی ملا، گہرے سمندر کی عطا ہے

اُجرت میں ملی ہے مجھے اقلیمِ سخن یہ

ہر شعر کسی زخمِ ستمگر کی عطا ہے

محشر میں بنے گی مری بخشش کا سبب یہ

نسبت جو مجھے ساقی کوثر کی عطا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]