ملول میں بھی ہوں ، تو بھی ہے اور شاعری بھی

مری شکست ہے جانے شکست کس کس کی

بس ایک تو ہی نہیں مہرباں رہا جب سے

تو سن رہا ہوں میں باتیں کرخت کس کس کی

مرا حبیب مرے سرو قد کو بانٹتا ہے

صلائے عام ہے ، قامت ہے پست کس کس کی

قمار خانہِ وحشت میں تجھ کو بھول گیا

کہ داؤ پر ہے یہاں بود و ہست کس کس کی

میں جوئے خون ہی لایا تھا پر سوا میرے

وفا ملی تجھے تیشہ بدست کس کس کی

میں آ گیا ہوں پلٹ کر ، کہو مرے زخمو

نہ سن سکا تھا میں ہجرت کے وقت کس کس کی

مجھے نہ پوچھ ، یہی دیکھ لے جہاں بھر میں

متاعِ عشق ہوئی لخت لخت کس کس کی

میں برق پا جو نہیں رہ سکوں تو تب سوچو

جہانِ کُل سے ہے آگے کی جست کس کس کی

اب اس کے بعد عزیزو ، فنا ہے ، سو بولو

وفا چلی تھی کیے بند و بست کس کس کی

ہزار خواب تھے اب یاد کچھ نہیں مجھ کو

کہ جان لے کے ٹلا تھا وہ وقت کس کس کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]