ملی جب سے غلامی حضرت شبیر کے در کی

چھڑی ہے قدسیوں میں گفتگو میرے مقدر کی

اٹھے طوفان غم یا آندھیاں آلام کی آئیں

رہے شمع محبت دل میں روشن ابن حیدرکی

جو دشت کربلا میں خون کی بوندوں نے لکھی ہیں

کبھی وہ مٹ نہیں سکتیں لکیریں ہیں وہ پتھر کی

لہو تازہ ٹپکتا ہے ابھی تک زخم باطل سے

یہی تو کاٹ ہے صبر و رضا کے تیز خنجرکی

جوابِ ہر ستم دینا حسینِ کربلا جیسا

تمہیں ایمان والو ہے قسم نیزہ چڑھے سر کی

تہی دامن لیے اسلام نے حسرت سے جب دیکھا

لٹا دی ابن حیدر نے کمائی زندگی بھر کی

کبھی سوچا بھی ہے انکی حفاظت کیسے ہو پائی

صدائیں سن رہے ہیں آپ جو اللہ اکبر کی

علی کے لاڈلوں کی پیاس ہی کچھ اور تھی ورنہ

زمین کربلا سے پھوٹ پڑتی نہر کوثر کی

شہ کونین کا بیٹا بھلا دنیا کو چاہے گا ؟

اڑانے والے تو یونہی اڑا دیتے ہیں بے پر کی

نکھر کر روپ اسکا جو ہوا جاذب نظر اتنا

یہ سرخی چہرۂ اسلام پر ہے خونِ اصغر کی

کفالت مصطفیٰ کی طائر سدرہ کی دربانی

زہے یہ شان و شوکت فاطمہ زہرا ترے گھر کی

زہے قسمت ہمیں حاصل پناہِ آل زہرا ہے

نہ ہمکو فکر دنیا کی نہ ہمکو فکر محشر کی

قلم ہے نورؔ کا اوصاف بھی ہیں نور والوں کے

عقیدت چاہتی ہے روشنائی ماہ و اختر کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]