ملی ہزاروں کو اس طرح سے بھی راہِ صواب

نہیں کرم سے ہے خالی تری نگاہِ عتاب

برائے مکتبِ دنیا ہے مستقل وہ نصاب

طفیلِ شاہِ مدینہ ملی ہمیں جو کتاب

مئے حجاز کی مستی سے ہے غرض مجھ کو

ملے نہ جامِ مصفّٰی تو دُردِ بادۂ ناب

پیو پلاؤ مئے عشقِ ساقیِ کوثر

جو حور و خلد کی خواہش تمہیں ہے روزِ حساب

ڈھلی ہے شامِ ضعیفی ہیں ختم ہنگامے

نہ اب وہ شوخیِ طفلی نہ جوشِ عہدِ شباب

نہ گلستاں میں پھر آئی بہارِ لالۂ و گل

کبھی تو جھوم کے برسے ترے کرم کا سحاب

چھپا تھا رازِ غمِ دل نگاہِ محفل سے

ٹپک پڑے مگر آنسو نظرؔ زِچشمِ پُر آب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]