منزلِ عشق میں خطراتِ بہر گام نہ دیکھ

حسنِ آغاز مبارک تجھے انجام نہ دیکھ

صاعقے، موجۂ صر صر، قفس و دام نہ دیکھ

عزمِ تزئینِ گلستاں ہے تو آرام نہ دیکھ

تیرگی بڑھ لے تو کچھ اور فروزاں ہوں گے

تابِ داغِ دلِ پُر درد سرِ شام نہ دیکھ

ایک ساعت بھی خوشی کی نہ میسر آئی

اس توجہ سے مجھے گردشِ ایام نہ دیکھ

صبحِ روشن ہے تعاقب میں تجھے ہو مژدہ

ہم نفس ظلمت و افسردگئ شام نہ دیکھ

داغِ دل، سوزِ جگر، رنج و الم، بیتابی

دیدنی کب ہے نظرؔ عشق کا انجام نہ دیکھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]