منزلِ قرب خدا میں وہ وہاں تک پہنچے

فاصلے گھٹ کے جہاں دو ہی کماں تک پہنچے

نورِ سرکارِ دو عالم کو پکارا میں نے

جب اندھیروں کے قدم وادیٔ جاں تک پہنچے

کاسۂ جاں کو اُجالوں سے وہ بھر کر لوٹے

جو گدا اُن کے درِ فیض رساں تک پہنچے

روشنی گنبدِ خضرا کی ملی ّجنت میں

شہر طیبہ ترے انوار کہاں تک پہنچے

پا شکستہ ہے غلام اور سفر ہے دشوار

ہو کرم آپ کا تو شہرِ اماں تک پہنچے

ایک اک گام پہ روشن کرو مدحت کے چراغ

نعت کی روشنی پھیلاؤ جہاں تک پہنچے

جب بھی آیا صبیحؔ اسمِ محمد لب پر

قافلے حرف کے معراجِ بیاں تک پہنچے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]