منزل ملے بے حوصلۂ جاں نہیں دیکھا

ہوتے ہوئے ایسا تو کبھی ہاں نہیں دیکھا

غیر آئے گئے، پھول چنے، بو بھی اُڑائی

ہم ایسے کہ اپنا ہی گلستاں نہیں دیکھا

دامن بھی سلامت ہے، گریباں بھی سلامت

اے جوشِ جنوں تجھ کو نمایاں نہیں دیکھا

ہیں تیرے تسلط میں فضائیں بھی، زمیں بھی

تجھ میں ہی مگر ذوقِ سلیماں نہیں دیکھا

ہے چشمِ تصور بھی یہ درماندہ و عاجز

تجھ کو کبھی اے جلوۂ پنہاں نہیں دیکھا

احساسِ زیاں وائے کہ ہے رو بہ تنزل

کل تھا جو اسے آج پشیماں نہیں دیکھا

کتنے ہی سخن ور وَ سخن داں نظرؔ ایسے

جن کو کبھی محفل میں غزل خواں نہیں دیکھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]