منشائے رسالت کا ہُوا جیسے اشارہ

مہتابِ ضیا بار نے دل کر لیا پارہ

رہتا ہُوں بہَر طَور ترے دستِ اماں میں

احساس ہے گرداب تو مدحت ہے کنارہ

کھِلتے نہیں رنگوں کے مناظر سرِ حیرت

قائم ہے ترے گنبدِ اخضر کا اجارہ

میزان میں رکھ کر مری نعتِ شبِ ہجراں

پُورا کیا آقا نے مرا سارا خسارہ

یکسر ہیں الگ اُس درِ رحمت کے قرینے

ہر چند کہ ہے جُودِ مکرّر کا نظارہ

برسائے گا جب ابرِ کرم وصل کا جھالا

بجھ جائے گا پھر آتشِ فرقت کا شرارہ

ملتی ہے ترے گھر سے ہی خیرات کرم کی

ہوتا ہے ترے در پہ ہی ہر درد کا چارہ

اُمید رکھیں کس سے، کریں کس سے تمنا

جب تیرے ہی ٹکڑوں پہ ہے، خوب اپنا گزارہ

آئے گا ضیا بخش بُلاوا ترے در سے

چمکے گا بڑے ڈھب سے مقدر کا ستارہ

تا حشر دِکھائے گا رہِ رُشد و ہدایت

اے ختمِ رُسُل ! تیری رسالت کا منارہ

مقصودؔؔ شبِ رحمتِ میلاد کے صدقے

مطروب ہُوا یابسہ، ٹھنڈا ہُوا حارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]