منظرِ دشتِ تگ و تاز بدل کر دیکھا

رزق کو رفعتِ پرواز بدل کر دیکھا

سلسلہ کوئی ہو انجام وہی ہوتا ہے

ہم نے سو مرتبہ آغاز بدل کر دیکھا

بس وہی ہجر کے سرگم پہ وہی درد کی لے

مطربِ عشق نے کب ساز بدل کر دیکھا

میرے شعروں سے ترے رمز و کنائے نہ گئے

میں نے ہر مصرعۂ غماز بدل کر دیکھا

ہم گدایانِ محبت نے مقدر اپنا

کبھی کاسہ، کبھی آواز بدل کر دیکھا

دشمنی کیسے بدل دیتی ہے تیور اپنے

معجزہ میں نے یہ ہمراز بدل کر دیکھا

کیا کہیں کیسا تماشہ کوئے جاناں میں ظہیرؔ

یہ لب و لہجہ و انداز بدل کر دیکھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]