منفرد لہجہ جدا طرزِ بیاں رکھتے ہیں ہم

شاعری کے واسطے اردو زباں رکھتے ہیں ہم

یادِ جاناں میں گزرتے ہیں ہمارے روز و شب

اور کسی کی یاد کی فرصت کہاں رکھتے ہیں ہم

تو سن، عمرِ رواں تھوڑا بہت آہستہ چل

ہر قدم پر خواہشوں کا اک جہاں رکھتے ہیں ہم

کون کہتا ہے ہمارے ہاتھ خالی ہو گئے

ماں کی صورت میں متاعِ دو جہاں رکھتے ہیں ہم

زینتِ محفل بڑھانے کے لئے اے جان جاں

تیری یادوں کا دیا بھی درمیاں رکھتے ہیں ہم

آسمان غم کا سورج ہم کو کیا جھلسائے گا

تیری الفت کا جو سر پر سائباں رکھتے ہیں ہم

پیش ظالم جرأت اظہار حق ہوتی نہیں

ظاہراََ رکھنے کو بس منہ میں زباں رکھتے ہیں ہم

کیا ہوا نوری اگر یہ جسم بوڑھا ہو گیا

جذبۂ عشق و محبت تو جواں رکھتے ہیں ہم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]