موجِ انفاس کو روانی دے

رات کوئی تو داستانی دے

آنکھ منظر کُشا ، نئے پل پل

اپنے ہونے کی کچھ نشانی دے

حمد لکھوں سنہرے لفظوں میں

آبِ زرّیں دے زربیانی دے

آٹھواں رنگ جس کا عنواں ہو

ایسی تازہ ، نئی کہانی دے

نغمے ، طائر ، شجر زمیں پیوست

تُو انہیں موسمِ آسمانی دے

ہاتھ شل ، پانی بے طرح ٹھہرا

کشتیاں دے تو بادبانی دے

کتنی گرمی لہو میں ہے ، دیکھوں

مرحلہ کوئی امتحانی دے

میں جسے رازؔ کہہ سکوں اپنا

کوئی ہم خواب ، کوئی ثانی دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]