مَنّت مانی جائے؟ یا کہ دم کروایا جا سکتا ہے؟

ربّا ! میرے سَر سے کیسے عِشق کا سایہ جا سکتا ہے؟

میں تو پیار میں داؤ سے پہلے بھی اِتنا جانتا تھا کہ

اِس بازی میں سارے کا سارا سَرمایہ جا سکتا ہے

سُن اے پگلی! دُنیا میں عِزّت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا

لیکن تیری خاطر تو یہ سب ٹُھکرایا جا سکتا ہے

ہونٹ سے ہونٹ مِلا کر پُھونکو، تو ہم سے بے نبضوں کی

سانسیں جاری ہو سکتی ہیں، دِل دھڑکایا جا سکتا ہے

میرے عِشق کے جِن چڑھتے ہیں اُس کو ، تو وہ کہتی ہے

ہاں مجھ کو تڑپاؤ جِتنا بھی تڑپایا جا سکتا ہے

دیکھو دِل دینے کے قابِل تم مَت سمجھو پر کم از کم

اِس قابل تو ہُوں کہ مُجھ سے دِل بہلا یا جا سکتا ہے

اب تم میرے کام آئے تو، اگلی بار میں کام آؤں گا

پیار کے کھیل میں اِک دُوجے کا ہاتھ بٹایا جا سکتا ہے

فتویٰ دو کہ جو برسوں سے بِچھڑے یار کو روتی ہو

ایسی عِدّت کے بارے میں کیا فرمایا جا سکتا ہے؟

بابُو! یہ ہے پیار، یہ کوئی عام نِکاح سی چیز نہیں

کہ اِک ٹُوٹا تو اُس پر اِک اور پڑھایا جا سکتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]