مِری شہ رگ ہے، کوئی عام سی ڈوری نہیں ہے

تمہارا غم مری طاقت ہے ، کمزوری نہیں ہے

انا کو بیچ میں لانے سے پہلے سوچ لینا

محبت عاجزی ہے ، کوئی منہ زوری نہیں ہے

ٹہلنے باغ میں آتے ہو جس نیت سے تم لوگ

میاں! وہ حوا خوری ہے ، ہوا خوری نہیں ہے

بھلے تم ہاتھ کاٹو یا مری گردن اُڑا دو

مگر یہ دِل کی چوری تو کوئی چوری نہیں ہے

بڑے گُن ہیں بچاری میں مگر ملتا نہیں بَر

سلیقہ ور ہے ، سُگھڑ ہے مگر گوری نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]