مٹا دل سے غمِ زادِ سفر آہستہ آہستہ

تصوّر میں چلا طیبہ نگر آہستہ آہستہ

زباں کو تابِ گویائی نہیں رہتی مدینے میں

صدا دیتی ہے لیکن چشمِ تر آہستہ آہستہ

اُتاری روح کی بستی میں جلوؤں کی دھنک اس نے

شکستِ شب پہ ہو جیسے سحر آہستہ آہستہ

جگائے علم کے سورج سکھائی لفظ کی حرمت

کیے وا آگہی کے سارے در آہستہ آہستہ

محبت کا سلیقہ دے دیا وحشی قبائل کو

مٹا صدیوں کی رنجش کا اثر، آہستہ آہستہ

صبیحؔ اُن کی ثناء اور تو کہ جیسے برف کی کشتی

کرے سورج کی جانب طے سفر، آہستہ آہستہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]