مکالمہ

سو میں نے کہا اُس پری زاد سے

کہ سُن تو سہی میری آنکھوں کی چاپ

مرے دل کے ہونٹوں پہ ہے دم بہ دم

ترے حُسن کی راگنی کا الاپ

تجھے بھی تو رکھتی ہے دن رات مست

تری دھڑکنوں کی جنوں خیز تھاپ

تو سچ سچ بتا کیا یہ ممکن نہیں ؟

کہ ہو جائے دونوں دلوں کا ملاپ

پگھل جائے گی سرد مہری کی برف

مرے پاس آ ، وصل کی آگ تاپ

سمجھ تو گئی تھی وہ جانِ حیا

سو اقرار کی تھی نگاہوں پہ چھاپ

مگر کم سُخن تھی سو کہنے لگی

کہ رحمان فارس! بڑے وہ ہیں آپ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]