میری تقدیر میں یوں بارِ الہٰا ہوتا

میری آنکھیں، ترے محبوب کا چہرہ ہوتا

سوچتا ہوں کہ مرا کیسے گزارا ہوتا

ترا مداّح نہ ہوتا، تو میں رُسوا ہوتا

ترا خورشیدِ ہدایت نہ اگر ہوتا طلوع

ساری دنیا کی فضاؤں میں اندھیرا ہوتا

ہاتھ ہوتے، نہ مرے پاؤں، نہ دھڑ ہوتا، نہ سر

کچھ نہ ہوتا میں، فقط چشمِ تماشا ہوتا

جب مدینے کی طرف ان کی سواری آتی

اس کو سو آنکھ سے میں دیکھنے والا ہوتا

منقلب ہوتا مرا جسم کئی شکلوں میں

کبھی شبنم، کبھی خوشبو، کبھی نغمہ ہوتا

کاش ملتا مجھے اُن پاؤں کا اِک لمس انورؔ

کاش میں ذرۂ صحرائے مدینہ ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]