میری زباں پہ وردِ الف لام میم ہے

یہ ابتدائے حمدِ خدائے کریم ہے

روزِ ازل سے تا بہ ابد ہے وہ جلوہ گر

لاریب اس کی ذات قدیم القدیم ہے

وہ جانتا ہے کس کی ضرورت ہے کس قدر

وہ بے طلب بھی دیتا ہے ایسا کریم ہے

لا تقنطو بھی شان اُسی کی ہے عاصیو

گھبرا رہے ہو کیوں وہ غفور الرحیم ہے

میں کیا کروں گا اس کی ثنا ، جانتا ہوں میں

میری حقیر فکر ہے اور وہ عظیم ہے

یہ بھی کرم ہے اُس کا بہ فیضِ رسولِ حق

میں جس پہ گامزن ہوں رہِ مستقیم ہے

خاکی امیر کہہ گئے کس سادگی کے ساتھ

"​بندہ گناہ گار ہے خالق کریم ہے”​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]