میرے دل کا دماغ تھا ہی نہیں

ورنہ اس کا سراغ تھا ہی نہیں

مجھ کو کب تھے پسند اندھیارے

میرے گھر میں چراغ تھا ہی نہیں

دل کی باتوں کو کوئی جانتا کیا

کوئی روشن دماغ تھا ہی نہیں

روح سے خون رس رہا تھا اور

میرے دامن پہ داغ تھا ہی نہیں

صرف تیری ہنسی میسر تھی

شہر میں کوئی باغ تھا ہی نہیں

رات بھی ہو چلی تھی گہری اور

اس پہ تیرا سراغ تھا ہی نہیں

کام کتنے رکے پڑے تھے زبیرؔ

دل کو غم سے فراغ تھا ہی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]