میں اپنی زندگی اس شان سے تحریر کرتا ہوں

کہ یوں لگتا ہے جیسے حسن کی تفسیر کرتا ہوں

کسی کی بھی کبھی تقلید بھولے سے نہیں کرتا

جو کچھ دل پر گزرتا ہے وہی تحریر کرتا ہوں

پریشاں میں رہوں دنیا پریشانی سے بچ جائے

ٹھہر اے گردشِ دوراں تجھے زنجیر کرتا ہوں

مری تقدیر کے لکھے پہ دنیا خندہ زن کیوں ہے

کسی سے کیا کبھی میں شکوۂ تقدیر کرتا ہوں

مجھے دیتی رہی ہے آج تک جس کی سزا دنیا

خدا جانے میں ایسی کون سی تقصیر کرتا ہوں

زمانے کی نگاہوں میں مرا یہ جرم ہے ساقیؔ

میں اپنے عہد کے حالات کی تفسیر کرتا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]