میں اپنی سمت تمھارے ہی دھیان جیسا ہوں

یقیں کرو مرا ،گرچہ گمان جیسا ہوں

مجھے سلام کرے گی ہوا سمندر کی

میں تیری ناؤ میں اک بادبان جیسا ہوں

ڈھلے گا دن تو تجھے مجھ میں ڈوبنا ہو گا

تْو آفتاب تو میں آسمان جیسا ہوں

ہزار درد مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں

میں اپنی ذات میں اک کاروان جیسا ہوں

ہر ایک درد کی بارش ٹپکتی ہے مجھ میں

میں اک غریب کے کچے مکان جیسا ہوں

ہوا سے کوئی شناسائی ہی نہیں قیصرؔ

کسی پرندے کی پہلی اْڑان جیسا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]