میں اپنی سمت تمھارے ہی دھیان جیسا ہوں
یقیں کرو مرا ،گرچہ گمان جیسا ہوں
مجھے سلام کرے گی ہوا سمندر کی
میں تیری ناؤ میں اک بادبان جیسا ہوں
ڈھلے گا دن تو تجھے مجھ میں ڈوبنا ہو گا
تْو آفتاب تو میں آسمان جیسا ہوں
ہزار درد مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
میں اپنی ذات میں اک کاروان جیسا ہوں
ہر ایک درد کی بارش ٹپکتی ہے مجھ میں
میں اک غریب کے کچے مکان جیسا ہوں
ہوا سے کوئی شناسائی ہی نہیں قیصرؔ
کسی پرندے کی پہلی اْڑان جیسا ہوں