میں بھی کسی کی راہِ طلب کا غبار تھا

میری نگاہ میں بھی کوئی شاہکار تھا

کمزور برگِ زرد بھی کیا پُروقار تھا

جھونکا ہوا کا اس کی طرف بار بار تھا

تقسیم تھی مکان کی دو بھائیوں کے بیچ

سینہ ضعیف ماں کا غموں سے فگار تھا

حیرت میں ہوں وہ کیسی کرامت دکھا گیا

شفاف بن گیا جو کبھی داغدار تھا

تجھ سے قریب ہونے کا اک راستہ ملا

مجھ کو اسی سبب سے گناہوں سے پیار تھا

ہجرت کی اصلیت سے تعلق نہیں کوئی

تم نے جسے قبول کیا وہ فرار تھا

شرما گیا متینؔ حقیقت کو دیکھ کر

آئینہ زندگی کا بڑا داغدار تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]