میں بھی کسی کے درد کا درمان بن گیا

ادنیٰ سا آدمی تھا میں انسان بن گیا

اپنی حدیں ملی ہیں تو ادراکِ حق ہوا

عرفانِ ذات باعثِ ایمان بن گیا

ہمسر تھا جبرئیل کا جب تک تھا سجدہ ریز

جیسے ہی سر اٹھایا تو شیطان بن گیا

خیراتِ عشق کیا پڑی کشکولِ ذات میں

اتنے کھلے گلاب کہ گلدان بن گیا

کچھ بھی نہیں تھا کہنے کو شہر وصال میں

ہجرت ملی غزل کو تو دیوان بن گیا

پہچانیے مجھے میں وہی ہوں ظہیرؔ، جو

خود کو مٹا کر آپ کی پہچان بن گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]