میں جتنی مشکل سے اپنا وعدہ نبھا رہا ہوں
یقین جانو یہ کوئی نیکی کما رہا ہوں
یہ میرے کمرے کا سارا منظر دھواں دھواں ہے
جلا رہا ہوں ، کبھی میں سگریٹ بجھا رہا ہوں
ترے بدن پرگڑی ہوئی ہیں کسی کی نظریں
میں ایک کتے کو اپنا کھانا کھلا رہا ہوں
مقابلہ ختم ہوگا اب جان سے گزر کر
کوئی رعایت نہیں کروں گا بتا رہا ہوں
میں اپنی مرضی سے بُن رہا ہوں بدن کی مورت
میں اپنی مرضی سے چاک اپنا گھما رہا ہوں
ہوا کے ہاتھوں بکھر چکا ہوں اگرچہ اب میں
پر اس سے پہلے گلاب بن کر کھلا رہا ہوں
زبیرنظروں سے دور ہے گرچہ اس کا چہرہ
مگر میں شعروں میں اس کا جلوہ دکھا رہا ہوں