میں جتنی مشکل سے اپنا وعدہ نبھا رہا ہوں

یقین جانو یہ کوئی نیکی کما رہا ہوں

یہ میرے کمرے کا سارا منظر دھواں دھواں ہے

جلا رہا ہوں ، کبھی میں سگریٹ بجھا رہا ہوں

ترے بدن پرگڑی ہوئی ہیں کسی کی نظریں

میں ایک کتے کو اپنا کھانا کھلا رہا ہوں

مقابلہ ختم ہوگا اب جان سے گزر کر

کوئی رعایت نہیں کروں گا بتا رہا ہوں

میں اپنی مرضی سے بُن رہا ہوں بدن کی مورت

میں اپنی مرضی سے چاک اپنا گھما رہا ہوں

ہوا کے ہاتھوں بکھر چکا ہوں اگرچہ اب میں

پر اس سے پہلے گلاب بن کر کھلا رہا ہوں

زبیرنظروں سے دور ہے گرچہ اس کا چہرہ

مگر میں شعروں میں اس کا جلوہ دکھا رہا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]