میں مسافر ہوں رہنما تُو ہے

"​میں ہوں بندہ مرا خدا تُو ہے”​

غیر کے پاس کس لیے جاؤں

تُو ہی والی ہے، آسرا تو ہے

آرزو اور کچھ نہیں میری

میرا بس ایک مدعا تُو ہے

باپ سے بڑھ کے پالنے والے

ماں سے بڑھ کر بھی چاہتا تُو ہے

میرا ظاہر ہے تیری نظروں میں

میرا باطن بھی دیکھتا تُو ہے

تجھ سے پوشیدہ کون سی شے ہے

راز ہر اک کے جانتا تُو ہے

تیری وسعت گماں سے ہے زیادہ

ابتداء تو ہے انتہا تُو ہے

تو ہے دم ساز راہِ الفت میں

لڑ کھڑاؤں تو تھامتا تُو ہے

ہر عمل کی جزا ملے تجھ سے

ہاں مگر صوم کی جزا تُو ہے

تیری باتیں ہر ایک آیت میں

پورے قرآں میں بولتا تُو ہے

کون تیرے سوا قمرؔ کا ہے

تُو ولی، والی و وِلا تُو ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]