میں نازشِ مہر و ماہ چہرے کی ایک لمحے کو دید کر لوں

نظر اٹھانے کی ہو اجازت تو اپنی آنکھوں کی عید کر لوں

گھرا ہوا ہوں شبِ اجل کے عجیب رنگوں کے وسوسوں میں

خیالِ پاپوشِ روحِ عالم سے زندگانی کشید کر لوں

میں حرفِ مدحت کے بیچنے کو قبیح حرکت سمجھ رہا ہوں

اگر میں چاہوں تو ایک مصرعہ میں ساری جنت خرید کر لوں

یہی وسیلہ یہی وظیفہ یہ اسمِ سرور ہے اسمِ اعظم

کھلے گا بابِ اثر یقیناً درود کو گر کلید کر لوں

یہ دل جبیں اور میری پلکیں درِ نبی پر ہیں سب خمیدہ

یہ خم نہیں آستاں کے لائق یہ خم اگرچہ مزید کر لوں

عطا ہوں رشکِ ارم کی گلیوں کی حاضری کے حسین لمحے

گزار کر سنگِ آستاں پر ہر ایک لمحہ سعید کر لوں

ہنر ملا ہے گداز لفظوں کو خوب شعروں میں ڈھالنے کا

تو کیوں نہ توصیفِ مصطفیٰ کر کے شاعری کو مفید کر لوں

یہ آرزو ہے کہ حسنِ کامل، رئیسِ خوباں کی بارگہ میں

محبتوں کے تمام جذبے برائے سرور شدید کر لوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]