میں پیاس کا صحرا ہوں، تُو دریا کا خزینہ

تُو قاسمِ تسنیم ہے، حاجت مری پینا

تُو وہ ہے کہ ہر حُسن تری ذات سے مُشتَق

میں وہ ہوں، کہ مجھ میں نہ سلیقہ نہ قرینہ

تُو قلزمِ آفاق کا ہے ساحلِ مقصود

میں بحرِ پُر آشوب میں کاغذ کا سفینہ

میں سنگ کا ریزہ ہوں نہ وُقعت نہ حقیقت

تُو فرقِ فلک کیلئے نایاب نگینہ!

تیرے لئے اک جست ہے افلاک کی رفعت

میرے لئے صدیوں کی مسافت ہے مہینہ

میں ظُلمت و حرماں کے دہانے پہ کھڑا ہوں

روشن ہے تری ذات سے کونین کا سینہ

ہر فعل ترا مصدرِ آگاہی و حکمت

ہر قول ترا علم کے انوار کا زینہ

ہیں تیرے ہی خورشیدِ جہاں تاب کی کرنیں

دانش کدۂ رومی و حکمت گۂ سینا

ہو عشق ترا میری تمناؤں کا مرکز

ترے ہی لئے ہو مرا مرنا، مرا جینا

بے نور سی ہونے لگیں جو نزع میں آنکھیں

ہو سامنے ضو باریٔ دربارِ مدینہ!

شرمندۂ احساسِ حقِ نعت ہوں انورؔ

ہر لفظ کے ماتھے سے ٹپکتا ہے پسینہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]