میں پیرِ باولی کو بھلا کیسے داد دوں

بحضور مرشد کریم عالمی مبلغِ اسلام صاحبزادہ پیر غلام بشیر نقشبندی صاحب زیب سجادہ آستانہ عالیہ باولی شریف

میں پیرِ باولی کو بھلا کیسے داد دوں

میری بساط کیا میں تعارف میں کچھ کہوں

مطلوب جن کا رب کی رضا اور بندگی

عشق نبی سے اِن کی عبارت ہے زندگی

ہر راحتِ حیات کو بس دیں پہ واردیں

پھر بھی خود احتسابی میں ہر وقت گم رہیں

ہر لفظ نورِ معرفت ، ہر بات معتبر

الفاظ ہیں کہ سوز میں لپٹے ہوئے گہر

آقا کے در کی چاکری ہے آنکھ کا خمار

ہر ریشہِ وجود میں بستا ہے اُن کا پیار

ہاتھوں میں ہاتھ جب بھی کسی کو عطا کیا

ایسا لگے کہ سارا کچھ اُس پہ لٹا دیا

بیٹھے رہیں تو جسم مرا وجد میں رہے

بولیں اگر تو روح کو اِک چین سا ملے

یہ رونقیں جہان کی دُنیا کی چاہتیں

اُن کے قدوم میں کبھی لغزش نہ لاسکیں

ذکرِ خدائے پاک سے بس لو لگائی ہے

یہ ذکر ہی تو زندگی بھر کی کمائی ہے

وقفِ ثنائے رحمتِ عالم ہے اُن کی ذات

آقا کی نسبتوں سے ہے ہر نسبتِ حیات

سجدے میں ہے جبین تو جذبے قیام میں

کیفیتیں بیان ہوں کیسے کلام میں

لب پہ دُعا ہے مولا مرے جو مجھے دیا

میرے ہر ایک صاحبِ نسبت کو ہو عطا

اب پاؤں میں بھی روشنی اِس آفتاب سے

نورِ شعور بھی ملے اِن کے نصاب سے

نظروں میں مستقل رہوں رفعت نواز کی

بیعت نصیب ہو مجھے اِن کے گداز کی

گلشن یہ باولی کا ہمیشہ ہرا رہے

کاسہ شکیلؔ فیض سے میرا بھرا رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]