میں ہوں، سفرِ شوق ہے، طیبہ کی ہوا ہے

غنچے کی طرح آج دل زار کھلا ہے

کچھ دیر کو اے ہم سفرو! پاس نہ آؤ

اک محشر جذبات مرے دل میں بپا ہے

اللہ ری رعنائی، بام و درِ طیبہ

جو میرے تصور میں تھی کچھ اس سے سوا ہے

ہر سمت وہی نکہت دامان محمد

ہر گام وہی تابش کف پا ہے

ہر نقش قدم میں وہ قدم دیکھ رہا ہوں

آنکھوں پہ مری، چاک زمانوں کی ردا ہے

قدموں سے سوا میری نگاہیں نہیں اٹھتیں

گو چہرہ انور کی بھی ضو جلوہ نما ہے

دیدار میسر ہے، نہیں ہمتِ دیدار

سر سوئے زمیں بارِ ندامت سے جھکا ہے

سر کو مگر احساس ہے اک لمس کرم کا

وہ لمس کہ ہر درد سے پیغام شفا ہے

اس لمس نے انوار کے در کھول دیے ہیں

وہ دیکھ رہا ہوں کہ جو دیکھا نہ سنا ہے

آہٹ ہے فضاؤں میں فرشتوں کے پروں کی

جو موج ہوا آتی ہے جنت کی ہوا ہے

اب دیکھیے کب ملتی ہے اس خواب کی تعبیر

میں ہوں، سفرِ شوق ہے، طیبہ کی ہوا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]