اردوئے معلیٰ

Search

پھر رہ نعت میں قدم رکھا

پھر دم تیغ پر قلم رکھا

 

شافع عاصیاں کی بات چلی

سر عصیاں ادب سے خم رکھا

 

صانع کن کی غایت مقصود

جس کی خاطر یہ کیف و کم رکھا

 

باعث آفرنیش افلاک

خاک کو جس نے محترم رکھا

 

آستاں پر اسی کے ،جھکنے کو

اسماں کی کمر میں خم رکھا

 

مدحت شان مصطفی کے لئے

دل میں سوز اور مشرہ میں نم رکھا

 

ہاں اسی آخریں نوا کے لئے

ساز ہستی میں زیر و بم رکھا

 

تونے اے چارہ ساز امتیاں

دھیان سب کا بچشم نم رکھا

 

دکھ کسی کا ہو، اپنے دل پہ لیا

تو نے ہم سے وہ ربط غم رکھا

 

تیری ہستی نے فرق امت پر

تاج سرتاجی امم رکھا

 

ہر زمانہ ترا زمانہ ہے

سب زمانوں کو یوں بہم رکھا

 

کوشش نعت نے مجھے خورشید

خود سے شرمندہ دم بدم رکھا

 

لفظ عاجز ہوئے تو آخر کار

چشم تر نے مرا بھرم رکھا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ