ناخداؤں کے کھُلے کیسے بھرم پانی میں

کیا سفینے تھے کئے غرق جو کم پانی میں

شہر کا شہر ہوا گریہ کناں مثلِ سحاب

کون دیکھے گا کوئی دیدۂ نم پانی میں

ڈر نہیں سیلِ زمانہ سے کہ ہم سوختہ جاں

سنگِ جاوا ہیں، نہیں ڈوبتے ہم پانی میں

چھین لے مجھ سے مری خشکیِ دامن کا غرور

جوشِ گریہ! ابھی اتنا نہیں دم پانی میں

اشک ہے سوزِ دروں، اشک غبارِ خاطر

آتش و خاک بالآخر ہوئے ضم پانی میں

یونہی بھر آئے کبھی آنکھ تو ہوتی ہے غزل

آہوئے حرفِ سخن کرتا ہے رم پانی میں

قطرۂ اشک ہو یا جرعۂ صہبا ہو ظہیرؔ

ہم ڈبوتے نہیں اپنا کوئی غم پانی میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]