نامۂ تخلیق پر نقشِ بقا، غارِ حِرا

تا ابد رَس گھولتی زندہ صدا، غارِ حِرا

آتشیں سورج کی زد میں تھی حجَر کی بے بسی

تن گئی تسکین کی نُوری ردا، غارِ حِرا

بے حسی اور جہل کے پنجوں میں جکڑی سوچ پر

علم اور عرفان کا مصحف کھُلا، غارِ حِرا

سر بسر اقرا بہ کف مہکا گُلستانِ کرم

مَیں نے سینے پر ابھی لکھا ہی تھا، غارِ حِرا

ایک ایسی زندگی بھی ہے حیاتِ نُور میں

جس میں جلتا ہے فقط تنہا دِیا، غارِ حِرا

نقش ہیں چھاتی پہ جس کی سیدہ کے نقشِ پا

عُزلتِ خاموش میں قُربت نما، غارِ حِرا

سوچتا ہُوں، نُور ہے یا نُور کا احساس ہے

آنکھ سے دل تک رواں موجِ ضیا، غارِ حِرا

دیکھتا ہو گا تجھے کعبہ بھی کتنے شوق سے

مہبطِ نُورِ مبیں، کُنجِ عُلا، غارِ حِرا

حرف سے ہوتیں نہیں ترقیم تیری طلعتیں

خامۂ احساس پر ہی جگمگا، غارِ حِرا

عہدِ رفتہ کی تجلی، عہدِ آئندہ کی ضَو

نعت کی صورت مرے شعروں میں آ، غارِ حِرا

روشنی اوراد کرتی ہے کفِ مقصودؔؔ میں

لکھتا ہے جذبِ رواں غارِ حِرا ، غارِ حِرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]