نام ان کا ہر گھڑی وردِ زباں رکھتا ہوں میں

ہر نفس کو مشکبو، عنبر فشاں رکھتا ہوں میں

گرمیِ محشر سے سامانِ اماں رکھتا ہوں میں

سایۂ دامانِ شاہِ دو جہاں رکھتا ہوں میں

آرزوئے دعوتِ برقِ تپاں رکھتا ہوں میں

شاخِ ہر گل پر بنائے آشیاں رکھتا ہوں میں

میں نہیں، ہاں میں نہیں شائستۂ منزل ابھی

دل میں صد اندیشۂ سود و زیاں رکھتا ہوں میں

کافری شیوہ مرا، فطرت مسلمانی مری

یاد ان کی سو بتوں کے درمیاں رکھتا ہوں میں

موج زن ہو کر نظرؔ آئے نہ تو امرِ دگر

دل میں ورنہ غم کا اک سیلِ رواں رکھتا ہوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]