نا رسائی کی تکالیف اُٹھاؤ کب تک

تم جو بالفرض نبھاؤ تو نبھاؤ کب تک

خشک ہوتی ہوئی جھیلوں پہ کہاں تک تکیہ

سوکھتے نخل کے دامن میں پڑاؤ کب تک

رجز پڑھنے ہیں ابھی اور ، مسیحا ، میں نے

کچھ بتاؤ کہ بھرے گا مرا گھاؤ کب تک

ہار جاتا ہوں چلو پھر سے مگر تم ہی کہو

آزماؤ گے بھلا ایک ہی داؤ کب تک

اشک فی الحال تو موتی سے کہیں مہنگے ہیں

دیکھئے غم کا ٹھہرتا ہے یہ بھاؤ کب تک

دل کو بونا ہو اگر تو یہ زمیں کیسی ہے

گر مناسب ہے تو ممکن ہے اگاؤ کب تک

رات لمبی ہے، کوئی چھت، کوئی خیمہ ڈھونڈو

جل سکے گا میرے سینے کا الاؤ کب تک

لوٹنا ہے تو پلٹ ، اور بچھڑنا ہے تو جا

سہہ سکیں گے میرے اعصاب تناؤ کب تک

زور سے زخم دبایا تو ہوا ہے ناصر

ہاتھ روکیں گے مگر خوں کا بہاؤ کب تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]