نثار چاند ہے ، قربان آفتاب کی دھوپ

ہے خوشگوار عجب روئے آنجناب کی دھوپ

اے آفتابِ فصاحت ! فصیح کہتے ہیں

’’ کھلی ہے صحنِ سخن میں ترے خطاب کی دھوپ ‘‘

حضور اپنی شفاعت کے سائے میں رکھیے !

جلائے مجھ کو نہ عصیاں کے احتساب کی دھوپ

عطائے مہرِ رسالت تو عام ہے لیکن

ہو جیسا صحنِ دل آتی ہے اُس حساب کی دھوپ

سبھی نجومِ نبوّت ہیں مستفید اس سے

ملی ہے سب کو مدینے کے آفتاب کی دھوپ

جھلس گیا وہ جہنّم کی آگ سے گویا

پڑی ہے جس پہ ذرا آپ کے عتاب کی دھوپ

رہے ثنائے محمّد کا سایہ سر پہ مرے

گزار یوں مِرے مولا ! مرے شباب کی دھوپ

جسے بھی نورِ خدا سایۂ کرم بخشے

پڑے گی اس پہ نہ ، رب کی قسم ، عذاب کی دھوپ

عیاں ہیں روئے معظمؔ سے اس لیے انوار

کہ صحن دل میں ہے عشقِ فلک مآب کی دھوپ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]