ندیوں کے پانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں

درد کی روانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں

یاد جب وہ آتی ہے ساز بجنے لگتے ہیں

پیار کی نشانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں

اک دھنک اترتی ہے اس کے ساتھ آنگن میں

رنگ آسمانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں

لفظ گنگناتے ہیں صبح کے اجالے میں

حسن نوجوانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں

آج یاد رفتہ نے سیر کی پشاور کی

اب بھی قصہ خوانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں

جب الاؤ روشن ہو لوگ بیٹھ جاتے ہیں

رات بھر کہانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں

ہے یقیں گماں جیسا اور گماں یقیں جیسا

کس کی خوش گمانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں

انتظار کرتا ہے آج بھی ترا طاہرؔ

اب بھی رت سہانی میں چوڑیاں کھنکتی ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]