نری بدن کی ضرورت، سخن وری ہی نہیں

ہے سعیٔ حرف مگر اس میں روشنی ہی نہیں

وہ جس نے شعر و سخن کو بدن پہ اوڑھ لیا

اسے حروف کی عظمت کی آگہی ہی نہیں

نِہالِ فکر کو آب و ہوائے طیبہ میں

وہ تازگی ہے مُیسر جو پہلے تھی ہی نہیں

حروف مدح کے لکھ کر ہوا ہے یہ معلوم

سخن میں ایسی کبھی روشنی ہوئی ہی نہیں

میں نعت لکھ کے نئی کائنات دیکھتا ہوں

وہ جس میں جلوۂ تاباں کی کچھ کمی ہی نہیں

ہر ایک شے میں حقیقت کا رنگ پاتی ہے

نظر نے خاک کی جانب نگاہ کی ہی نہیں

حقیقتِ نبوی کون جان سکتا ہے

کسی کو قوتِ ادراک وہ ملی ہی نہیں

ہزار بار کی کوشش کے بعد یہ جانا

نبی کی، لفظوں میں عظمت سما سکی ہی نہیں

میں حرف لکھنے کا لاکھ اہتمام کر ڈالوں

ملال رہتا ہے مدحِ نبی ہوئی ہی نہیں

کبھی تو لفظ کی نیرنگیاں نہیں رہتیں

کبھی شعوریہ کہتا ہے روشنی ہی نہیں

مجھے بھی قربتِ رُوحُ الْقُدُس میسر ہو!

بغیر جس کے کوئی بات بن سکی ہی نہیں

عزیزؔ نعت رہے تازہ آگہی کی امیں

جو یہ نہیں تو سمجھ، مدح ہو سکی ہی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]