نسخۂ فوز و فلاح

آسماں بھی نہ تھا

زمیں بھی نہ تھی

مہر و ماہ و نجوم کچھ بھی نہ تھے

صرف اِک ذاتِ پاک تھی تنہا

اُسی لمحے اُسے خیال آیا

کوئی دیکھے جمال بھی میرا

ہر طرح کا کمال بھی میرا

وسعتیں میری کوئی دیکھ سکے

قدرتیں میری کوئی جان سکے

پھر اُسی وقت رَبِّ اکبر نے

علم میں جتنی صورتیں تھیں نہاں

اُن سبھی کو وجود بخش دیا

خِلقتِ اوّلیں مگر اس دم

ایک نورِ محمدی ٹھہرا

اور اس نور ہی کی کرنوں سے

چاند سورج کو تابکاری دی

کِشتِ گیتی کی آبیاری کی

آنکھ بخشی کہ دید ممکن ہو

عقل سے یہ مزید ممکن ہو

ہو گئیں ختم جب خرد کی حدود

وحیٔ رب کو ملا حسین وجود

سلسبیلِ ہدیٰ چلی آگے

روشنی کا سفر بڑھا آگے

یوں رسولان (علیہ السلام) وقت نے آکر

خرد افروز حکمتیں بخشیں

عقل کو نورِ حق کی دولت دی

اور جب زیست کو ملا ادراک

دور کرنے کو سب خش و خاشاک

اِک بشر کو جہاں میں بھیج دیا

وہ بشر سیدالبشر ٹھہرا

اوّلیں نور جو ہوا تخلیق

وہ اسی اک بشر کا پیکر تھا

یہ بشر نور ہی کا مظہر تھا

بعثتِ خاتم الرسل جو ہوئی

رَبّ نے تکمیل دین فرما دی

تاکہ دنیا کا ایک اک گوشہ

رشکِ ماہ و نجوم بن جائے

اور ہر اک بشر زمانے میں

اُس کا اُسوہ ہی صرف اپنائے

وہ مکمل بشر کہ جس کے لیے

رَبّ نے سارا جہاں بنایا تھا

وہ عرب کی زمیں پہ آیا تھا

اور اُسی اک جناب کی خاطر

رَبّ نے عالم کو یوں سجایا تھا

اس مقدس بشر کا نقشِ قدم

تا ابد جاوداں بنانے کو

رَبّ نے ہر اک بشر سے یہ چاہا

اُسوۂ روشن و درخشاں میں

سارے انسان اس طرح ڈھل جائیں

کہ زمیں کے ہر ایک خطے میں

ہر طرف دہر کی فضاؤں میں

اُسوۂ نورِ مصطفی پھیلے

اُسی سیرت کا رنگ چھا جائے

جو بھی جن و بشر جہان میں ہوں

اتِّباعِ نبی پہ آ جائیں

اور فوز و فلاح پا جائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]