نصیب تھا علی اصغر کا یار بچپن میں

بنایا خلد کو جائے قرار بچپن میں

حسین ابنِ علی کے جگر کا ٹکڑا تھا

جو کربلا میں ہوا مشکسار بچپن میں

دیئے گئے اسے تسنیم و سلسبیل کے جام

جو تشنگی نے کیا بے قرار بچپن میں

علی کا عزمِ شجاعت تھا اس کے چہرے پر

نبی کے نور کا تھا عکس دار بچپن میں

گیا ہے چھوڑ کے آغوشِ مادری کا سکوں

چنا ہے جس نے شہادت کا بار بچپن میں

علی کا خون تھا منہ پھیر کر کہاں جاتا

خوشی سے سہہ لیا دشمن کا وار بچپن میں

یہ بے مثال ہے کمسن شہیدِ کرب و بلا

ہوا جو دینِ خدا پر نثار بچپن میں

منقبت بحضور سیدنا علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]