نطق میرا سعدی و جامی سے ہم آہنگ ہو

گفتگو میں مدحتِ خیر الوریٰ کا رنگ ہو

الفتِ سرکارِ بطحا ہو رگِ جاں میں رواں

مست عشقِ مصطفیٰ میں میرا ہر اک انگ ہو

پیروی شاہِ مدینہ کی ہو میرا مشغلہ

ہر گھڑی مدِ نظر جانِ جہاں کا ڈھنگ ہو

دوستی ہو آپ کے در کے غلاموں سے مری

آپ کے گستاخ سے میری ہمیشہ جنگ ہو

جس کے دل میں دُھن سمائی ہو شہِ کونین کی

غیر ممکن ہے کہ اس کے دل پہ کوئی زنگ ہو

میں بھکاری تاجدارِ دو جہاں کے در کا ہوں

مانگتا ہوں آپ سے جب ہاتھ میرا تنگ ہو

عرش کو چھو لے مری تقدیر کا تارا، اگر

حشر میں اشفاقؔ شاہِ انبیاء کے سنگ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]