نظر کا بوجھ اٹھایا نہیں گیا تجھ سے

جو تو نے دیکھا، دکھایا نہیں گیا تجھ سے

وہ یاد ہوں جو تجھے بھول کر نہیں آئی

وہ عشق ہوں جو نبھایا نہیں گیا تجھ سے

نظر گنوائی ہے تجھ سے نظر ملاتے ہوئے

سو مجھ سے ہاتھ ملایا نہیں گیا ، تجھ سے

میں جانتا ہوں بلا کا زمانہ ساز ہے تو

بس ایک میں کہ منایا نہیں گیا تجھ سے

تمام کوششیں ناکام ہو گئیں قیصرؔ

وہ ایک شخص بھلایا نہیں گیا تجھ سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]