نعت خواں سے خطاب!

اپنے افعال سے ظلمت کی علامت نہ بنا

شعرِ مدحت تو ہے فی الاصل چراغِ روشن

پیروی سنتِ آقا کی ہے لفظوں کی جِلا

نعت خواں! مدح، نہ بن جائے شکم کا ایندھن

نعت پرھنے میں تقدس کا رہے خاص خیال

ذکرِ حق، ساز کی دھن کے نہ مشابہ ہو جائے

جیب ہو گرم تو دل میں ہو خشیت کا اثر

حظ، ترا نفس تری شعبدہ بازی سے نہ پائے

مرکیاں خوب لگا، ہو جو ترنم میں جمال

لیکن اس فن کو کسی گیت کی دھن سے نہ ملا

نعت کو فلم کے گیتوں کی دھنوں پر نہ الاپ

اپنا فن صرف کسی راگ کی صورت نہ دکھا

ہو جو اخلاص تو ہر حرفِ ثنا میں مضمر

تیرے جذبے کا اثر دل کا جہاں بدلے گا

انقلاب آئے گا دنیائے دلِ سامع میں

اور کچھ تیرا بھی اندازِ بیاں بدلے گا

باغِ طیبہ میں بھی پہنچے کی یقینا اک دن

طِیبِ اخلاص جو پھیلے گی تری محفل سے

پھر ترا نام بھی ہو گا صفِ مداحاں میں

جب بھی نکلی تری آواز شکستہ دل سے

شاعرِ نعت سے خطاب:

یہی کہنا ہے مجھے شعر کے کاریگر سے

شعرِ مدحت کو کسی بیتِ عمومی سے نہ ناپ

کسی قوال کی خاطر نہ عقیدے کو بگاڑ

ہو نہ اشعار سے گیتوں کے ترنم کا ملاپ

شعر، پھر شعر ہے جذبے کی زباں بولتا ہے

لیکن اس جذبے میں اخلاص کی خوشبو بھی تو ہو

تیرے اشعار کو مل سکتی ہے اس در کی زکوٰۃ

مدح کے شعر میں سچائی کا پہلو بھی تو ہو

شاعرِ نعت نبی! سوچ سمجھ کر کچھ لکھ

چند سکوں کے لیے لفظ کی حرمت سے نہ کھیل

رزق مل جائے گا آقا کی ثنا کرنے پر

لیکن اس فن کے لیے اُن کی شریعت سے نہ کھیل

دلِ مضطر نے یہ اشعار کہلوائے عزیزؔ

حرفِ اظہار سے گرمی کا اثر پیدا ہے

نعت گو میں بھی ہوں، اِس کا بھی میں رکھتا ہوں خیال

دل ہو خود ہی سے مخاطب یہ مرا منشا ہے

لوگ جو رزقِ ثنا پاتے ہیں، سن لیں وہ اگر

ان کے دل پر بھی ہو کچھ میری نصیحت کا اثر

پھر تو مل جائے مجھے میری گزارش کا ثمر

ساری دنیا پہ برس جائے وہ رحمت کا سحاب

وار دوں میں بھی عزیزؔ اپنی عقیدت کے گلاب

قطعہ … افکارِ پریشاں:اتوار: ۲۱؍شوال ۱۴۳۳ھ… مطابق: ۹؍ستمبر ۲۰۱۲ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

مسلمانوں نہ گھبراؤ کورونا بھاگ جائے گا

خدا کی راہ پر آؤ کورونا بھاگ جائے گا عبادت کا تلاوت کا بناؤ خود کو تم خُو گر مساجد میں چلے آؤ کورونا بھاگ جائے گا طریقے غیر کے چھوڑو سُنو مغرب سے مُنہ موڑو سبھی سنت کو اپناؤ کورونا بھاگ جائے گا رہو محتاط لیکن خیر کی بولی سدا بولو نہ مایوسی کو […]

جس میں ہو تیری رضا ایسا ترانہ دے دے

اپنے محبوب کی نعتوں کا خزانہ دے دے شہرِ مکّہ میں مجھے گھر کوئی مِل جائے یا پھر شہرِ طیبہ کی مجھے جائے یگانہ دے دے اُن کی نعلین کروں صاف یہی حسرت ہے ربِّ عالم مجھے اِک ایسا زمانہ دے دے نوکری تیری کروں آئینہ کرداری سے اُجرتِ خاص مجھے ربِّ زمانہ دے دے […]