نعت کہنے کو جب بھی اٹھایا قلم، میرے جذبات کو جانے کیا ہو گیا

خامشی لب پہ مدحت سرا ہو گئی، اشک آنکھوں میں حرفِ دعا ہو گیا

شکلِ احمد تصور میں سجنے لگی، بُعدِ فُرقت کے سب فاصلے مِٹ گئے

میری پلکیں مدینے کی گلیاں بنیں، میرا سینہ ہی غارِ حرا ہو گیا

آپکی چشمِ عرفاں کے فیضان سے، سارباں ریگزاروں کے رہبر بنے

جو عمر تھا وہ فاروقِ اعظم بنا، جو علی ؑ تھا وہ شیر خدا ہو گیا

میں نے جس گام پر کھائی ٹھوکر مرا، رحمتِ عالمیں ہی سہارا بنے

جس دوراہے پہ آ کے میں بھٹکا وہیں، آپ کا نقشِ پا رہنما ہو گیا

عظمتیں اسکے قدموں کی مٹی بنیں، جس نے اشکوں سے لکھی ہے نعت نبی

جو جھُکا آپ کے در کی دہلیز پر، فی الحقیقت وہ قد سے بڑا ہو گیا

پھر لرزتے ہوئے لب پہ ہے یہ دعا، راہِ طیبہ کا مجھ کو مسافر بنا

اس سے پہلے بھی اے شاہِ ہر دوسرا، میں نے جو کچھ بھی مانگا عطا ہو گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]