نفرتوں کا وسیع دریا ہو
ہاتھ شل ہو چکے ہیں چپوّ سے
ایک دم ہو گیا ہوں پتھر کا
آپ کی گفتگو کے جادو سے
دن نکلتا ہے دیکھ کر چہرہ
شب بندھی ہے تمھارے گیسو سے
پھر مجھے کاٹنے لگا بستر
اُٹھ گیا تھا کوئی جو پہلو سے
اُس نے ٹانکا تھا پھول کالر میں
میں مُعطّرہوں اُس کی خوشبو سے
مرتضیٰ یہ سکوت اچھا ہے
جان جاتی ہے میری ہا ہو سے