نفرتوں کا وسیع دریا ہو

ہاتھ شل ہو چکے ہیں چپوّ سے

ایک دم ہو گیا ہوں پتھر کا

آپ کی گفتگو کے جادو سے

دن نکلتا ہے دیکھ کر چہرہ

شب بندھی ہے تمھارے گیسو سے

پھر مجھے کاٹنے لگا بستر

اُٹھ گیا تھا کوئی جو پہلو سے

اُس نے ٹانکا تھا پھول کالر میں

میں مُعطّرہوں اُس کی خوشبو سے

مرتضیٰ یہ سکوت اچھا ہے

جان جاتی ہے میری ہا ہو سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]