نور دے کر، یاشفیقؒ و مشفقِ من، خواب کو

چین کچھ تو بخش دیجے دیدۂ بے تاب کو

قربتِ سرکارِ دو عالم ﷺ میں رہ کر پائی ہے

آپ نے وہ شان جس پر رشک ہو اقطاب کو

معرفت کی سیر میں اس طرح خود آگے بڑھے

کر دیا پیچھے سفر میں شیخ کو اور شاب کو

گو، رہا لاغر جسد، پر روح تھی اتنی قوی

ہیچ جانا معرفت کے بحر میں گرداب کو

معرفت کی راہ میں بھی آپ کی خاطر ملی

نورِ عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے روشنی ہر باب کو

عشقِ شاہِ بحر و بر کا روح پر ٹھپہ لگا

جس نے روشن کر دیا عشاق کے القاب کو

سامنے جالی کے آنے کی کبھی کوشش نہ کی

یوں رکھا دہلیزِ سرور ﷺ کے ادب آداب کو

آپ کی پاکیزہ سیرت سے ملا ہم کو سبق

کس طرح رکھتے ہیں قائم موتیوں کی آب کو

التماس اک بار پھر کرتا ہے، قلبِ ناصبور!

روئے انور کی جھلک مل جائے میرے خواب کو

کاش میری منقبت گوئی بھی آ جائے پسند

یاں رسول اللہ ﷺ کو، واں خالقِ توَّاب کو

نسبتِ حضرت شفیقؔ ایسی ملی مجھ کو عزیزؔ

رشک کرتے دیکھتا ہوں اب کئی احباب کو

منقبت حضرت شفیق الملت،قاضی شفیق احمدفاروقی مدنی رحمۃ اللہ علیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

منقبت ہے سیرتِ سرور کی تابندہ کرن

جو سفر کرتی ہوئی پہنچی شفیق احمدؒ تلک یعنی وہ ہستی نظر نے جس کی اس دنیا میں بھی خوب دیکھی لمحہ لمحہ ماہِ طیبہ کی جھلک اہلِ دنیا جس کے سب اعمال میں پاتے رہے سیرتِ گُل ہائے آقا کی بہر لحظہ مہک پھر انہیں آقا نے اپنے قرب میں بخشی جگہ سو رہے […]

حضرت حسینؓ کتنے ہیں مظلوم! آج تک

پیغام ان کا بے اَثَرِیْ کا شکار ہے لیتے ہیں لوگ نام بڑے احترام سے لیکن عمل؟ کہ انؓ کے عدو ہی سے پیار ہے ۰۰۰ ہر شخص جو بھی غصب کرے اقتدار کو دشمن حسینیت کے نظریئے کا ہے وہی دولت کے اور قوتِ دنیا کے واسطے جس نے بھی سلطنت کسی حیلے سے […]