نور کے حرف چنوں، رنگ کا پیکر باندھوں

نعت لکھنی ہو تو مہر و مہ و اختر باندھوں

شاید اِس طرح کوئی نغمۂ دلکش اُبھرے

آنکھ کے موتی کو جبریل کے پَر، پر باندھوں

ایک منظر سے تو بنتا نہیں اُس کا منظر

نور کے سارے حوالوں کو مکرّر باندھوں

لب کا پیرایہ تو بے حد ہے ثقیل و جامد

مَیں ترا اسم کہیں بوسے کے اندر باندھوں

ویسے تو حجرۂ رحمت ہے تمثل سے وریٰ

بہرِ تفہیم اسے عرش کے اوپر باندھوں

نسبت و نام تو پہلے سے ہے حاصل مقصودؔ

تاجِ نعلین جو مِل جائے تو سَر پر باندھوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]