نکالو بزم سے تم حاشیہ نشینوں کو

تو ہم بھی جمع کریں پھر تماشہ بینوں کو

سمجھ حقیر نہ تو بوریہ نشینوں کو

اتار لیتے ہیں یہ عرش کے مکینوں کو

کسی طرح بھی وہ اپنا نہ بن سکا اب تک

کہ آزما تو لیا ہم نے سو قرینوں کو

شریکِ سازشِ دریا جو ناخدا بھی رہے

تو موج اٹھ کے ڈبوتی رہی سفینوں کو

ہلائے دیتے ہیں اپنے ہی ہاتھوں بنیادیں

مکاں سے نسبتِ معکوس کے مکینوں کو

عروجِ زیست کی منزل میں بے مثال ہیں ہم

بہ جست گام کیا طے ہزار زینوں کو

تمہارے نقشِ قدم کی نہ تھی جہاں خوشبو

جھکا سکے نہ کبھی ہم وہاں جبینوں کو

جِلا نظرؔ کو لگن دل کو اور جگر کو خلش

بہ فیضِ عشق ملا کچھ نہ کچھ ہے تینوں کو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]